Wednesday, July 30, 2025

پیسے کی کہانی پارٹ 1

پیسے کی کہانی

کوئی تیس ہزار سال پہلے انسان روئے زمین پر خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ کوئی موسم کی وجہ سے نقل مکانی کرتا تو کوئی اجناس و جانور کی تلاش میں۔ خانہ سامان ہی کیا ہو۔ ایک آدھ جوڑا، کچھ اوزار اور کچھ بر تن۔ جب کسی اور قبیلے یا کنبے سے ملنا ہو تو اپنی کوئی چیز دے کر ان کی لے لی۔ مثلاً گندم کے بدلے مچھلی یا اوڑھنی کے بدلے کوئی بر تن – زر / نقدی / پیسہ کا کوئی وجود نہیں تھا، کسی کے پاس کوئی پیسہ نہیں تھا۔ چھوٹی سی ملکیت، محدود خواہشات سب کا ساجھا اور زندگی رواں دواں تھی۔ مسابقت انسان کی گھٹی میں ہے۔ تو اس بات پر فخر و غرور کیا جانے لگا کہ کس کے پاس کتنا کچھ ہے۔ پیسہ ابھی بھی کسی کے پاس نہیں تھا مگر اجناس و مویشی کی تقسیم مساوی نہیں تھی۔ کوئی کسی فن کا کاریگر تھا تو کوئی کسی کا۔ اور یہاں سے ایک دوسرے کے مابین با قاعدہ لین دین کی شروعات ہوئی جسے ہم آج تک بارٹر سسٹم کے طور پر جانتے ہیں اور یہ دنیا میں کسی نہ کسی صورت آج تک قائم ہے۔ تقریباً میں ہزار سال اور آئس ایج (Ice Age) ایسے ہی گزر گئی۔

کوئی گیارہ ہزار سال پہلے انسانوں نے خانہ بدوشی کو چھوڑ کے اپنے مستقل ٹھکانوں پر رہنا شروع کیا۔ جانوروں کا صرف شکار کرنے کی بجائے ان کو پالنا اور ان کی نسل کی پرورش کرنا شروع کر دیا۔ سبزیاں اور اناج کاشت کرنے کی ریت اپنائی اب جب ایک جگہ سکون سے رہنا شروع کیا تو روز مرہ کے سامان میں بھی اضافہ شروع ہو گیا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ آباد کاری کی ابتداء مشرق وسطی کے علاقے سے ہوئی جسے فرٹائل کریسنٹ (Fertile Crescent) کہا جاتا تھا۔ لوگ گاوں، قبیلوں، علاقوں، نسلوں اور زبانوں میں باقاعدہ بٹنا شروع ہوئے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ تجارت ولین دین کی ابتداء ہوئی۔

دو ہزار سال اور گزر گئے اور بارٹر سسٹم مصر سے لے کر انڈیا تک اور مشرق وسطی سے لے کر اہل بابل تک مستحکم ہوتا چلا گیا۔ ہر وہ شے جس کی معاشرے میں کوئی نہ کوئی قدر ہو بارٹر کے طور پر لین دین میں استعمال ہونے لگی۔ گندم، جو، مکئی، گائے، بھینس، بکری، زعفران، مچھلی، چاول الغرض ہر شے جس کی ضرورت یا ڈیمانڈ ہو وہ بارٹر میں استعمال ہو سکتی تھی۔ کوئی لگ بھگ ہزار سال یوں گزر گئے اور قریب دس ہزار سال پہلے لوگوں نے اشیاء کو گننا شروع کیا۔ ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بارٹر میں دی اور لی جانے والی اشیاء کافی مختلف ہوتی تھیں۔ مثلاً آپ کے پاس گائے ہے اور آپ کو زعفران چاہیے تو ایک کلوز عفران کے بدلے کوئی اپنی گائے کیوں دے گا۔ تو اب وہ چاہتا ہے کہ اسے اتنازعفران، اتنا کپڑا، اتنی گندم وغیرہ ملے۔

لوگ عموماً جانوروں و اجناس کی شکلیں مٹی سے بنا کر ایک مٹی کے لفافے میں رکھ لیتے۔ پھر اسی لفافے پر تصویریں بنانے کا عمل شروع ہوا۔ پھر لوگوں نے مٹی کے اجسام کے درمیان سوراخ کر کے انہیں دھاگے میں پرونا شروع کر دیا۔ اب آپ کے قبیلے کے سردار کے گلے میں لڑکا ہوا ہار اس بات کی نشاندہی کرتا تھا کہ آپ کے پاس کتنے جانور ، زمین اور اجناس ہے اور اس طرح سودے ہوتے تھے۔

بارٹر سسٹم جوں جوں پھیلتا گیا اس کی قبولیت اور پیچیدگیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آپ نے اپنے بکرے کو دے کر کچھ بر تن لیتے ہیں مگر جس کے پاس برتن ہیں اسے بکر انہیں چاہیے ، وہ

تو کپڑے چاہتا ہے ۔ اب آپ کو ایسا شخص ڈھونڈنا ہو گا جو بکرالے کر کپڑے دے دے تاکہ آپ کپڑے دے کر برتن لے سکیں۔ پھر اس بات کی کیا ضمانت کہ آپ سب کو یہ چیزیں ایک ہی وقت میں چاہئیں۔ پھر گندم تو آرام سے مختلف اور ان میں بٹ سکتی ہے ، بکرے کا کیا کریں گے۔ اگر آدھا کاٹ دیا تو باقی ماندہ اپنی قدر کھو دے گا۔

دنیا چلتی رہی اور لوگوں کو مختلف میٹلز ملتے چلے گئے۔ کسی کے ہاتھ سونا لگا تو کسی کے ہاتھ چاندی یا تابنہ ۔ اگر آپ فرٹائل کریسینٹ کے میسو پوٹیما کے بادشاہ ایشو نا کا چار ہزار سال پرانا قانون پڑھیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کسی آدمی کی ناک پر کاٹنے کا جرمانہ چاندی کا ایک مینا تھا ( جو ایک پاونڈ چاندی کے برابر ہوتا ہے ) اور کسی کو تھپڑ مارنے کا جرمانہ 12 شیکل ( مینا کا چھٹا حصہ ) ہوتا تھا۔ مزدور کے ایک دن کی اجرت مینا کا ہزارواں حصہ تھا۔ یعنی کسی نے اگر ناک پر کاٹ لیا تو تین سال کی محنت کی اجرت دینا پڑے گی۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ اس زمانے میں سونے اور چاندی کس طرح روز مرہ زندگی میں استعمال ہوتے تھے۔

لگ بھگ اسی زمانے کے آس پاس حضرت ابراہیم نے اپنی زوجہ حضرت سارہ کی قبر کے لئے جگہ Machpelah میک پلا کی غار (آج کل کا الحرم ابراہیمی) چار سو شیکل میں خریدی تھی جو آج کے دور کے قریباً سوا کروڑ بنتے ہیں۔

میسو پوٹیا میں چاندی اور مصر میں تانبہ اور سونا بطور زر استعمال ہوتے تھے۔ اب اگر ایک شخص کی روزانہ کی اجرت چاندی کے مینا کا ہزارواں حصہ ہے تو اسے ناپنے / تولنے کے لئے اس معیار کے میزان درکار ہونگے۔ ایسے آلات و میزان عموماً عبادت گاہوں میں رکھے جاتے ، لوگ جاتے اور اپنی اجرت کے بدلے سامان خورد نوش لے آتے۔

سونے چاندی کا حصول طاقتور کے لئے آسان اور غریب کے لئے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ کسی کے پاس اگر نہ تو سونا چاندی ہے اور نہ ہی کوئی جنس / اشیاء جسے بارٹر کر سکے تو وہ عموما گلی فصل آنے

تک اشیاء ادھار پر لے لیتا تھا اور یہاں سے مٹی کی صلیبوں پر I owe You میں تمہارا مقروض ہوں) لکھنے کا رواج چلا۔ اب اگر آپ نے کسی سے دس گندم کے تھیلے لئے ہیں تو آپ یہ مٹی کی تختی پر لکھ کر اسے دے دیں گے ، فصل آنے پر آپ اسے واپس کر دیں گے۔ اب اگر اس شخص کو پہلے ہی ضرورت پڑگئی تو وہ کسی اور شخص سے کچھ لے کر یہ تختی اس کے حوالے کر دے گا اور آپ اس شخص کو جس کے پاس یہ تختی ہو گی اسے فصل دینے کے پابند ہوں گے۔

اور اس طرح معاشرے میں مٹی کی تختیوں کا یہ رواج چل نکلا۔ لینے والے کی حاجت زیادہ ہوتی ہے۔ دینے والے کو اتنا فرق نہیں پڑتا اور یہیں سے سود کا عفریت چل نکلا۔

آپ نے دس بوری اناج لیا مگر آپ کو لوٹانا بارہ بوری پڑا۔ جب سرکار نے عام آدمیوں کو ایسے کماتے دیکھا تو وہ خود کیسے پیچھے رہ سکتی تھی تو اب سارا اناج عبادت گاہوں اور مندروں میں رکھ دیا جاتا اور اس کے بدلے کوئی سختی جاری کر دی جاتی۔ جو شخص بھی یہ تختی لے کر چلا جائے اسے کسی مقدار میں اناج مل جاتا۔ حکومت اناج رکھوانے والے اور خریدنے والے دونوں سے منافع لیتی۔ جیسے ہمارے آج کل کے کاغذی نوٹوں پر لکھا ہوتا ہے۔ حامل ہذا کو مطالبے پر ادا کرے گا، وغیرہ۔

1100 قبل مسیح میں چین نے پہلی مرتبہ تابنے کے سکے جانوروں اور اجناس کی شبیہ پر بنائے ۔ 600 قبل مسیح میں لائیڈ یا (آج کل کے ترکی) کے بادشاہ الیوتس نے دنیا کو سکوں سے متعارف کروایا۔ ایک ہی ساخت، وزن اور قدر کے سکے بادشاہ وقت جاری کر دے گا تا کہ عوام لین دین میں آسانی سے استعمال کر سکیں اور بوقت ضرورت کوئی بھی شخص انہیں دے کر سرکاری خزانے سے متبادل سونا اور چاندی لے سکے۔

اس وقت دنیا میں بلا مبالغہ سینکڑوں ریاستیں اور حکمران تھے اور ہر حکمران نے اپنا سکہ رائج الوقت نافذ کر دیا۔ لوگ ملکوں کے مابین تجارت کرنے کے قابل ہوئے سارے سکے یکساں وزن کے اور مالیت کے ساتھ تو نہ تو کوئی وزن کرنا پڑتا اور نہ ہی کوئی پریشانی۔

مشرق وسطی سے لے کر چین کے بلیک سی تک اور یورپ کے کلیسائوں سے لے کر لائیڈیا کے بازاروں تک دنیا سکوں پر آگئی۔ دنیا کا پہلا بازار جہاں آپ دکانوں سے اشیاء سکوں کے بدلے خرید سکیں، بھی لائیڈ میں ہی بنا۔

سرکار جب سکے بناتی تو ان کی مالیت اصل سے کچھ کم رکھتی تاکہ منافع کما سکے۔ بحری بندر گاہوں کے ساتھ جگہ جگہ لوگوں نے سکوں کی لین دین کا کاروبار شروع کر دیا اور خوب منافع کمایا۔ آپ انہیں قبل مسیح کے منی چینجرز کہہ لیں۔ دنیا کے پہلے بینکر کا نام پیشن تھا، یہ یونان میں غلام تھا مگر آہستہ آہستہ اس نے بینکنگ کی بنیاد رکھی، شہری حقوق حاصل کئے اور ایک کامیاب بینکر بنا۔ جب 370 قبل مسیح میں اس کی موت واقع ہوئی تو اس کے پاس 360،000 دینار یاڈر ماکس تھے۔ بینکنگ اس دور میں بھی منافع بخش تھا۔

پیسہ ازر کی ضمانت سکوں ، چاقو اور طرح طرح کے ڈھلے ہوئے اجسام میں پائی جانے لگی۔ سونا، چاندی، تابنہ ، الیکٹریم اور دوسری دھاتیں اس مقصد کے لئے استعمال ہونے لگیں۔ سات سو سال قبل مسیح سے چار سو سال قبل مسیح تک یہ فن چین ، ترکی مصر، مشرق وسطی، یورپ سے لے کر انڈیا تک پھیل گیا۔

دنیا میں سب سے پہلے سکوں کا وزن اور قدر میڈی ٹرینین باد شاہ فیڈون نے طے کیا۔ پہلے سکے جن پر کسی حکمران کی مہر ثبت تھی۔ ایجینا جزیرہ میں سات سو قبل مسیح میں بنے۔

547 قبل مسیح میں اہل فارس نے سکوں کو اپنایا۔ 483 قبل مسیح میں اہل یونان نے اپنی افواج کو سکوں میں اجرت دینا شروع کی۔ یہ سکے چاندی کے بنے ہوئے تھے۔ لوگوں نے جوق در جوق فوج میں شمولیت اختیار کی اور اہل یونان کی سلطنت پھیلتی چلی گئی۔

413 قبل مسیح میں روم ، اٹلی میں ایک دیوی کی پوجا ہوتی تھی ، اسی کے نام سے مندر تھا۔ اس کا نام مونیٹا تھا۔ تاریخ دان اسی دیوی کی مناسبت سے منی (Money) اور منٹ (Mint) کے ناموں کی توجیہہ کرتے ہیں۔ زبان دان منی کو لاطینی زبان کے لفظ Moneta سے اخذ کرتے ہیں جس کا مطلب ہے ” منفرد “۔

اہل فارس اور اہل یونان کی دیکھا دیکھی اہل روم نے بھی سکوں کا استعمال شروع کر دیا۔ یہ لوگ تانبے اور چاندی کے بنے سکے کا استعمال کرتے تھے اور رومن امپائر کے سینیٹرز (Senators) اپنے غلاموں کے ساتھ ہاتھ گاڑیوں میں اپنا خزانہ لادے پھرتے تھے۔ انہوں نے ہی یہاں عوام پر ٹیکس لاگو کیا اور اگلے دو سو سال تک پیسے کے خبط میں یکے بعد دیگرے دنیا فتح کرتے چلے گئے ۔ 167 قبل مسیح میں جب میسا ڈو نیا کو شکست ہوئی تو روم میں مال غنیمت کے طور پر 75 ملین دینارے (300 ٹن چاندی) آیا۔

اتنی زیادہ دولت نے روم کو اور طاقتور اور مضبوط بنادیا۔ شہر بڑھتا چلا گیا اور لوگ سامان عیش و عشرت خرید تے چلے گئے۔ منفرد پرندے ہوں یا نت نئی خوشبوئیں ، انسانی غلام ہوں یا ایک سے بڑھ کر ایک گھوڑا اور فرنیچر ، جنگی ساز و سامان ہوں یا چین و ہندوستان اور عرب سے درآمد کی گئی مصنوعات اور مصالحہ جات، روم خرچ کرتا چلا گیا۔ ایک رومن تاریخ دان پلینی لکھتا ہے که روم سالانه 25 ملین دیناری سامان عیش و عشرت پر خرچ کرتا تھا۔ جہاں روم میں پیسوں کا راج تھا وہاں چین میں 118 قبل مسیح میں ہرن کی کھال کے چمڑے پر ، رنگین سرخیوں کے ساتھ دنیا کے پہلے کرنسی نوٹ نے جنم لیا۔

اس کے بعد حکومت کا ” ضمانتی نوٹ مختلف شکلوں میں چلتا رہا، چمڑے پر درخت کی چھال پر جانوروں کی کھال اور ہڈیوں پر اور دھات کی پلیٹوں پر مگر دنیا ابھی تک سکوں ، درہم و دینار پر ہی چل رہی تھی۔

روم سے درآمدات کی مد میں پیسہ باہر جاتا رہا۔ لوگ آتے رہے، لین دین اور کاروبار بڑھتا رہا فتوحات ہوتی رہیں اور مال غنیمت آتارہا۔ مگر 117 سال قبل مسیح میں رومن امپائر پر فتوحات کا سلسلہ رک گیا۔ پیسوں کی قلت ہوئی تو سرکار نے اس کا حل یہ نکالا کہ سکوں میں صرف چاندی کی بجائے ٹن اور دوسری دھاتیں بھی ملانے لگی۔ دکاندار بھی چالاک تھے۔ انہوں نے اسی حساب سے نرخ بڑھا دیئے اور یوں اہل روم نے دنیا کو Inflation یا افراط زر سے متعارف کروایا۔ جو مرغی پانچ دینارے کی تھی وہ ایک سال میں بڑھ کے پندرہ اور اگلے سال 45 دنیارے کی ہو گئی۔ جولیس سیزر کی فوج کا سپاہی جو 46 قبل مسیح میں 225 دینارے تنخواہ لیتا تھا وہ 200 صدی عیسوی تک 600 اور 235 صدی عیسوی میں 1800 د نیارے لینے لگا۔

اسی اثناء میں ایک انوکھا کام ہوا۔ ویسٹرن پینک میں مائیکرونیشیا کے جزیرے پیپ پر لوگوں نے 9 ہزار پاونڈ کے ایک بڑے سے گول پتھر کو زر کے ڈیپازٹ والٹ جیسا درجہ دے دیا۔ یہ قریبی پلا کو جزیرے سے یہاں لایا گیا تھا اسے Stone of Rai رائی کا پھر کہتے تھے۔

 

Similar Post

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Recent Post